شوقِ بے انتہا نہ دے جانا
بندگی کو خدا نہ دے جانا
ضبطِ غم کا صلہ نہ دے جانا
زندگی کی دعا نہ دے جانا
رات تاریک، راہ ناہموار
دلِ بے تاب کا بھروسا کیا
مجھ کو آہِ رسا نہ دے جانا
شوق کی ابتدا کو ٹھکرا کر
جرأتِ انتہا نہ دے جانا
میرے شوقِ طلب کی بات ہے اور
تم طلب سے سوا نہ دے جانا
کوئی احسان کر کے قابلؔ پر
دوستی کی سزا نہ دے جانا
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment