تیری صُورت جو دِلنشِیں کی ہے
آشنا شکل ہر حسِیں کی ہے
حُسن سے دل لگا کے ہستی کی
ہر گھڑی ہم نے آتشِیں کی ہے
صبحِ گُل ہو کہ شامِ مے خانہ
شیخ سے بے ہراس مِلتے ہیں
ہم نے توبہ ابھی نہیں کی ہے
ذکرِ دوزخ، بیانِ حُور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
اشک تو کچھ بھی رنگ لا نہ سکے
خُوں سے تر آج آستِیں کی ہے
کیسے مانیں حرم کے سہل پسند
رسم جو عاشقوں کے دِیں کی ہے
فیضؔ اوجِ خیال سے ہم نے
آسماں سندھ کی زمِیں کی ہے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment