دُنیا مِری آباد ہے جس راحتِ جاں سے
دیتا ہوں دُعائیں اُسے دھڑکن کی زُباں سے
حیرت سے وفائیں مِرا منہ دیکھ رہی ہیں
شیشے کا خریدار ہوں، پتھر کی دُکاں سے
ایسا وہ کہاں جیسا غزل میں نظر آئے
تم ہاتھوں کو بیکار کی زحمت سے بچا لو
دستک کا جواب آتا نہیں خالی مکاں سے
رکھے جو قتیلؔ اپنے سمندر کو بچا کر
شکوہ ہے مِری پیاس کو اُس پیرِ مغاں سے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment