Tuesday 28 January 2014

وہ ماہتاب جو ڈُوبا ہوا ملال میں تھا

وہ ماہتاب جو ڈُوبا ہوا ملال میں تھا
مجھے خبر ہی نہیں ہے میں کس خیال میں تھا
شکست کھا کے بھی میں سرخرو سا لگتا ہوں
کہ دوستی کا مزا دشمنوں کی چال میں تھا
خراش تھی میرے رُخ پر یا وہم آنکھوں میں؟
تمام بھید تیرے آئینے کے بال میں تھا
عروجِ نوکِ سِناں جب ہُوا نصیب مجھے
فلک پہ کانپتا سورج حدِ زوال میں تھا
میں ٹُوٹتے ہُوئے پتے سنبھالتا کب تک
کہ زرد زہر تو پیڑوں کی ڈال ڈال میں تھا
تیرا خلوص پرکھنے کا وقت ہی نہ مِلا
کہ میں اسیر تیری نفرتوں کے جال میں تھا
کب اس نے ٹُوٹ کے چاہا تھا یوں مجھے محسنؔ
یہ معجزہ بھی نہاں اب کے ماہ و سال میں تھا

محسنؔ نقوی

No comments:

Post a Comment