وہ ماہتاب جو ڈُوبا ہوا ملال میں تھا
مجھے خبر ہی نہیں ہے میں کس خیال میں تھا
شکست کھا کے بھی میں سرخرو سا لگتا ہوں
کہ دوستی کا مزا دشمنوں کی چال میں تھا
خراش تھی میرے رُخ پر یا وہم آنکھوں میں؟
عروجِ نوکِ سِناں جب ہُوا نصیب مجھے
فلک پہ کانپتا سورج حدِ زوال میں تھا
میں ٹُوٹتے ہُوئے پتے سنبھالتا کب تک
کہ زرد زہر تو پیڑوں کی ڈال ڈال میں تھا
تیرا خلوص پرکھنے کا وقت ہی نہ مِلا
کہ میں اسیر تیری نفرتوں کے جال میں تھا
کب اس نے ٹُوٹ کے چاہا تھا یوں مجھے محسنؔ
یہ معجزہ بھی نہاں اب کے ماہ و سال میں تھا
محسنؔ نقوی
No comments:
Post a Comment