Thursday 30 January 2014

پانیوں کے سفر میں پتوار نہیں‌ بدلے جاتے

پانیوں کے سفر میں پتوار نہیں‌ بدلے جاتے
گرمئ بازار میں زیست کے ادوار نہیں بدلے جاتے
ہوائے شہرِ خُوباں سے کہو ہوش کرے
موسم بدل جائے تو اشجار نہیں بدلے جاتے
تیری مُسکان کا پرتَو ہیں آنکھیں تیری
دشمنِ جاں رَتجگوں کے آثار نہیں بدلے جاتے
مشامِ جان میں‌ مہکتے گُلابوں کی قسم
ہمارے عہد میں عشق کے معیار نہیں بدلے جاتے
اپنی ہی آگ میں جلنا ہے تجھے ابنِ آدمؑ
شہرِ خموشاں میں در و دیوار نہیں بدلے جاتے
خود اپنی فکر سے اتنا تو ہم نے سیکھا ہے
خسروِ سخن کے افکار نہیں بدلے جاتے
جو تم پہ گزری ہے ہم سے کہو انور جمال
مرگِ انبوہ میں غم خوار نہیں بدلے جاتے

انور جمال فاروقی

No comments:

Post a Comment