جب بھی کہتا ہوں کوئی تازہ غزل تیرے لیے
میرے احساس میں کِھلتے ہیں کنول تیرے لیے
جانتا ہوں، کہ میرا دُشمنِ جاں ہے، پھر بھی
دل کی ہر بات پہ کرتا ہوں عمل تیرے لیے
دُشمنی یوں تو کسی سے بھی نہیں ہے میری
آنکھ جمنا ہے میری اس کے کِنارے آ جا
میں نے بنوایا ہے اِک تاج محل تیرے لیے
اپنا گھر غور سے دیکھا ہی نہیں تُو نے قتیلؔ
یہ تو دُنیا میں ہے جنت کا بدل تیرے لیے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment