صدمے جھیلوں، جان پہ کھیلوں اس سے مجھے انکار نہیں ہے
لیکن تیرے پاس وفا کا کوئی معیار نہیں ہے
یہ بھی کوئی بات ہے آخر دُور ہی دُور رہیں متوالے
ہرجائی ہے چاند کا جوبن، یا پنچھی کو پیار نہیں ہے
اِک ذرا سا دل ہے جس کو توڑ کے بھی تم جا سکتے ہو
ملّاحوں نے ساحل ساحل موجوں کی توہین تو کر دی
لیکن پھر بھی کوئی بھنور تک جانے کو تیار نہیں ہے
پھر سے وہی سیلابِ حوادث، جانے دو اے ساحل والو
یا اس بار سفینہ ڈوبا، یا اب کے منجدھار نہیں ہے
قیدِ قفس کے بعد کرئے گا قیدِ گُلستاں کون گوارا
اب بھی وہی زنجیریں ہیں گو پہلی سی جھنکار نہیں ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment