جب سے آیا ہے تِرے پیار کا موسم جاناں
دل میں رہتی ہے لگاتار چھماچھم جاناں
زخم جو تم نے دیے اُن کا سندیسہ یہ ہے
بھیجنا اب نہ خُدارا کوئی مرہم جاناں
جل رہے تھے مِری پلکوں پہ جو یادوں کے چراغ
رُک گئی سانس، بچھڑنے کی گھڑی جب آئی
دل مگر پھر بھی دھڑکتا رہا پیہم جاناں
باندھ لوں میں بھی تِری یاد کے گھنگرو، لیکن
رقص کرنا بھی تڑپنے سے نہیں کم جاناں
تُو نے چھوڑا نہ کسی ردِعمل کے قابل
اب مِرا شعر نہ شعلہ ہے نہ شبنم جاناں
جانے کیا تجھ سے ہوئی بات کہ گُم صُم ہے قتیلؔ
اب تِرا نام بھی لیتا ہے وہ کم کم جاناں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment