Saturday 25 January 2014

جب سے آیا ہے ترے پیار کا موسم جاناں

جب سے آیا ہے تِرے پیار کا موسم جاناں
 دل میں رہتی ہے لگاتار چھماچھم جاناں
زخم جو تم نے دیے اُن کا سندیسہ یہ ہے
 بھیجنا اب نہ خُدارا کوئی مرہم جاناں
جل رہے تھے مِری پلکوں پہ جو یادوں کے چراغ
 اب تو اُن کی بھی لویں ہو گئیں مدھم جاناں
رُک گئی سانس، بچھڑنے کی گھڑی جب آئی
 دل مگر پھر بھی دھڑکتا رہا پیہم جاناں
باندھ لوں میں بھی تِری یاد کے گھنگرو، لیکن
 رقص کرنا بھی تڑپنے سے نہیں کم جاناں
تُو نے چھوڑا نہ کسی ردِعمل کے قابل
 اب مِرا شعر نہ شعلہ ہے نہ شبنم جاناں
جانے کیا تجھ سے ہوئی بات کہ گُم صُم ہے قتیلؔ
 اب تِرا نام بھی لیتا ہے وہ کم کم جاناں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment