کہوں کیا فسانۂ غم اسے کون مانتا ہے
جو گزر رہی ہے مجھ پر مِرا دل ہی جانتا ہے
تُو صبا کا ہے وہ جھونکا جو گزر گیا چمن سے
نہ وہ رونقیں ہیں باقی نہ کہیں سہانتا ہے
اسے میں نصیب جانوں کہ بشر کی خود فریبی
تِرا یوں خیال آیا، مجھے غم کی دوپہر میں
کوئی جیسے اپنا آنچل مِرے سر پہ تانتا ہے
میں نظام زر کی دیوی سے قتیلؔ آشنا ہوں
کہیں نام اس کا بانو، کہیں چندر کانتا ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment