Thursday 30 January 2014

تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اک دن انتہا ہو گا

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اِک دن اِنتہا ہو گا
صدائے ساز ہو گی اور نہ ساز بے صدا ہو گا
ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سُنو محشر میں ‌کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہوں‌ گے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
سرِ محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا، درِ رحمت تو وا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت، جو بھی ہو گا فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور ان کا سامنا ہو گا
ازل ہو یا ابد، دونوں اسیرِ زلفِ حضرت ہیں
جِدھر نظریں‌ اٹھاؤ گے، یہی اِک سلسلہ ہو گا
یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں ‌سکتی
جو محبوبِ خدا ہو گا، وہ محبوبِ خدا ہو گا
اسی امید پر ہم طالبانِ درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، دردِ لادوا ہو گا
نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہرِ عاشق پر اگر ہو گی تو کیا ہو گا
یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گزرے گی، وہ دل ہی جانتا ہو گا
سمجھتا کیا ہے تُو دیوان گاہِ عشق کو زاہد
یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہو گا
جگر کا ہاتھ ہو گا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہو گا، شکوہ جو بھی ہو گا، برملا ہو گا

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment