یہاں ظلم بندوں پہ جب ہو رہا تھا، وہ کیوں چُپ رہا
مجھے پو چھنا ہے کہ وہ تو خُدا تھا، وہ کیوں چُپ رہا
فلک تک نہ پہنچا اگر بے نواؤں کا نالہ کوئی
یہیں ایک طوفانِ آب و ہوا تھا، وہ کیوں چپ رہا
جو کمزور تھے اُن میں ہمت نہیں تھی کہ وہ بولتے
اُسے اپنے جیسوں کی ایک ایک کرتوت معلوم تھی
ہمارا جو خود ساختہ رہنُما تھا، وہ کیوں چُپ رہا
نشانہ تشدّد کا جب شہریوں کو بنایا گیا
جو اس شہر میں امن کا دیوتا تھا، وہ کیوں چُپ رہا
عدالت میں جُھوٹے گواہوں کی یلغار تھی کس لیے
جو ہر بات اچھی طرح جانتا تھا، وہ کیوں چُپ رہا
سلیقہ نہیں عام انسان کو بولنے کا، مگر
قتیلؔ ایک شاعر جو شُعلہ نوا تھا، وہ کیوں چُپ رہا
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment