ساون کے سہانے موسم میں اِک نار مِلی بادل جیسی
بے پنکھ اُڑانیں لیتی ہے جو اپنے ہی آنچل جیسی
وہ جس کی کمر تک چوٹی ہے، رنگت میں بیر بہوٹی ہے
چُھو کر جو اُسے دیکھا میں نے وہ مجھ کو لگی مخمل جیسی
لایا ہے بنا کر اُس کو دُلہن، یہ جوبن، یہ البیلا پن
چہرے پہ سجے آئینے ہیں، یا دو بے داغ نگینے ہیں
کس جھیل سے آئی ہیں دُھل کر یہ آنکھیں نیل کنول جیسی
جو دیکھے اسے وہ کھو جائے، کھو جائے تو شاعر ہو جائے
اس کا انداز ہے گیتوں سا، اُس کی آواز غزل جیسی
وہ ایسے قتیلؔ اب یاد آئے، سپنا جیسے کوئی دُہرائے
میں آج بھی اُس کو چاہتا ہوں پر بات کہاں وہ کل جیسی
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment