Tuesday 28 January 2014

کسی کی یاد سہارا شب فراق کا ہے

دل ایک ٹوٹا ستارہ شبِ فراق کا ہے
جو ایک بار ہوا غرق، پھر نہیں اُبھرا
بہت ہی گہرا کنارہ شبِ فراق کا ہے
جہاں بھی جائیے، یہ ساتھ ساتھ رہتی ہے
یہاں وہاں پہ اجارہ شبِ فراق کا ہے
ہے کیا مجال یہاں اہلِ وصل آ جائیں
یہ دشت سارے کا سارا شبِ فراق کا ہے
نہ نیند آئی ہمیں اور نہ تم ہی سو پائے
یہ جاگنا بھی ہمارا شبِ فراق کا ہے
کسی کو بھاتی نہیں میری داستانِ وصال
نظر نظر میں شمارہ شبِ فراق کا ہے
خیالِ یار کے اشرفؔ چراغ روشن کر
مجھے یہ غیبی اشارہ شبِ فراق کا ہے

اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment