دن بھر ستانے کے لیے پیڑوں سے چَھن کر آ گئی
میرے لیے اِک تیِرگی، سُورج پہن کر آ گئی
میں زندگی کی تلخیاں جب چھوڑ کر جانے لگا
وہ شکل میرے سامنے دیوار بن کر آ گئی
جو کچھ مجھے بخشا گیا کم تھا بُہت، روزِ ازل
چاہا کہ شہرِ حُسن میں اُونچی مِری گردن رہے
میرے مقابل عمر کی شمشیر تَن کر آ گئی
دوزخ تھی جس کی زندگی، جس کا کوئی بچہ نہ تھا
شوہر کے گھر وہ بے نوا، اِک سَوت جَن کر آ گئی
واقف نہیں کیا تُو قتیلؔ اِس پتھروں کے شہر سے
کیوں اِس میں تیری زندگی شیشہ پہن کر آ گئی
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment