Saturday, 25 January 2014

دن بھر ستانے کے لیے پیڑوں سے چھن کر آ گئی

دن بھر ستانے کے لیے پیڑوں سے چَھن کر آ گئی
 میرے لیے اِک تیِرگی، سُورج پہن کر آ گئی
میں زندگی کی تلخیاں جب چھوڑ کر جانے لگا
 وہ شکل میرے سامنے دیوار بن کر آ گئی
جو کچھ مجھے بخشا گیا کم تھا بُہت، روزِ ازل
 حیرت، کہ پھر میری انا کِس طرح مَن کر آ گئی
چاہا کہ شہرِ حُسن میں اُونچی مِری گردن رہے
 میرے مقابل عمر کی شمشیر تَن کر آ گئی
دوزخ تھی جس کی زندگی، جس کا کوئی بچہ نہ تھا
 شوہر کے گھر وہ بے نوا، اِک سَوت جَن کر آ گئی
واقف نہیں کیا تُو قتیلؔ اِس پتھروں کے شہر سے
 کیوں اِس میں تیری زندگی شیشہ پہن کر آ گئی

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment