Monday, 27 January 2014

مل گیا تھا تو اسے خود سے خفا رکھنا تھا

مِل گیا تھا تو اُسے خود سے خفا رکھنا تھا
دل کو کچھ دیر تو مصروفِ دعا رکھنا تھا
میں نہ کہتا تھا کہ سانپوں سے اَٹے ہیں رَستے
گھر سے نکلے تھے تو ہاتھوں میں عصا رکھنا تھا
بات جب ترکِ تعّلُق پہ ہی ٹھہری تھی تو پھر
دل میں احساسِ غمِ یار بھی کیا رکھنا تھا
دامنِ موجِ ہوا! یوں تو نہ خالی جاتا
گھر کی دہلیز پہ کوئی تو دِیا رکھنا تھا
کوئی جگنو تہہِ داماں بھی چُھپا سکتے تھے
کوئی آنسو پسِ مژگاں ہی بچا رکھنا تھا
کیا خبر اُس کے تعاقب میں ہوں کتنی سوچیں
اپنا انداز تو اوروں سے جُدا رکھنا تھا
چاندنی بند کواڑوں میں کہاں اُترے گی
اِک دریچہ تو بھرے گھر میں کُھلا رکھنا تھا
اُس کی خوشبو سے سجانا تھا جو دل کو محسنؔ
اُس کی سانسوں کا لقب موجِ صبا رکھنا تھا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment