Saturday 25 January 2014

گرمی حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں

گرمئ حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں 
 ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں 
 شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لئے
 ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں 
 خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
 جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں 
بچ نکلتے ہیں اگر آتشِ سیّال سے ہم
 شعلۂ عارضِ گُلفام سے جل جاتے ہیں 
 جب بھی آتا ہے مِرا نام، تِرے نام کے ساتھ
 جانے کیوں لوگ مِرے نام سے جل جاتے ہیں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment