گرمئ حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لئے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
بچ نکلتے ہیں اگر آتشِ سیّال سے ہم
شعلۂ عارضِ گُلفام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مِرا نام، تِرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مِرے نام سے جل جاتے ہیں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment