اِک بار جو تک لے اُسے تکتا ہی چلا جائے
شعلہ سا بدن اس کا دہکتا ہی چلا جائے
کردار ادا جب میں کروں بادِ صبا کا
وہ پھول کی مانند مہکتا ہی چلا جائے
حالات کی بجلی نے کیا راکھ نشیمن
آ جائیں میسر جسے آنکھوں کے وہ ساغر
وہ رِند تو پی پی کے بہکتا ہی چلا جائے
پھولوں کو توقع ہے نہ امکان ثمر کا
اِک پیڑ مگر پھر بھی لہکتا ہی چلا جائے
ہم لاکھ مہذب ہوں، مگر تم ہی بتاؤ
جب ضبط کا پیمانہ چھلکتا ہی چلا جائے
ہر گام پہ الزام قتیلؔ اب بھی ہیں، لیکن
اُن پانو میں بِچھوا جو چھنکتا ہی چلا جائے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment