Tuesday 28 January 2014

کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا

کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا
مجھے اپنا ہاتھ بھی چُھو گیا تو خیال تیری طرف گیا
تیرے ہجر میں خور و خواب کا کئی دن سے ہے یہی سلسلہ
کوئی لقمہ ہاتھ سے گر گیا تو خیال تیری طرف گیا
کسی حادثے کی خبر ہوئی تو فضا کی سانس اُکھڑ گئی
کوئی اتفاق سے بچ گیا تو خیال تیری طرف گیا
کوئی آ کے جیسے چلا گیا، کوئی جا کے جیسے گیا نہیں
مجھے اپنا گھر بھی نہ گھر لگا تو خیال تیری طرف گیا
مری بے کلی تھی شگفتنی سو بہار مجھ سے لِپٹ گئی
کہا وہم نے کہ یہ کون تھا، تو خیال تیری طرف گیا
میرے اختیار کی شدتیں میری دسترس سے چلی گئیں
کہیں تو بھی سامنے آ گیا تو خیال تیری طرف گیا

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment