Friday 24 January 2014

علم و فن کے دیوانے عاشقی سے ڈرتے ہیں

علم و فن کے دیوانے عاشقی سے ڈرتے ہیں
زندگی کے خواہاں ہیں زندگی سے ڈرتے ہیں
یوں تو ہم زمانے میں کب کسی سے ڈرتے ہیں
آدمی کے مارے ہیں آدمی سے ڈرتے ہیں
جل کے آشیاں اپنا خاک ہو چکا کب کا
آج تک یہ عالم ہے روشنی سے ڈرتے ہیں
لے لے زندگی یارب اور کچھ سزا دے
جی لیے بہت، اب زندگی سے ڈرتے ہیں
جب نہ ہوش تھا ہم کو دشمنی سے ڈرتے تھے
اب جو ہوش آیا ہے دوستی سے ڈرتے ہیں
رہنے دے انہیں ناصح تو یوں ہی اندھیرے میں
کچھ تو ہے جو دیوانے آگہی سے ڈرتے ہیں
پھول بھی جو ہنستے ہیں، دل دھڑکنے لگتا ہے
یا ہنسی پہ مرتے تھے، یا ہنسی سے ڈرتے ہیں
توبہ اور جوانی میں خمارؔ کیا کہنا
لوگ آپ جیسے ہی متقی سے ڈرتے ہیں

خمار بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment