گاتے ہوئے پیڑوں کی خُنَک چھاؤں سے آگے نکل آئے
ہم دُھوپ میں جلنے کو تِرے گاؤں سے آگے نکل آئے
ایسا بھی تو ممکن ہے، مِلے بے طلب اِک مژدۂ منزل
ہم اپنی دُعاؤں سے، تمناؤں سے آگے نِکل آئے
کہتے ہیں کہ ان جسموں کو اِک روحِ مقدّس کی دُعا ہے
تھوڑا سا بھی جن لوگوں کو عرفانِ مذاہب تھا، وہ بچ کر
کعبوں سے، شوالوں سے، کلیساؤں سے آگے نکل آئے
تھے ہم بھی گنہگار، پر اِک زاہدِ مکّار کی ضِد میں
بازار میں بِکتی ہوئی سلماؤں سے آگے نکل آئے
شہروں کے مکینوں سے مِلی جب ہمیں وحشت کی ضمانت
ہم سِی کے گریبانوں کو صحراؤں سے آگے نکل آئے
بنتی رہی اِک دُنیا قتیلؔ اپنی خریدار، مگر ہم
یوسفؑ نہ بنے اور زلیخاؤں سے آگے نکل آئے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment