Tuesday 28 January 2014

زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے

زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے
بعض اوقات مِری رُوح غضب کرتی ہے
جو تِری زُلف سے اُترے ہُوں مِرے آنگن میں
چاندنی ایسے اندھیروں کا اَدب کرتی ہے
اپنے انصاف کی زنجیر نہ دیکھو کہ یہاں
مُفلسی ذہن کی فریاد بھی کب کرتی ہے
صحنِ گُلشن میں ہواؤں کی صَدا غور سے سُن
ہر کلی ماتمِ صَد جشنِ طرب کرتی ہے
صرف دن ڈھلنے پہ موقوف نہیں ہے محسنؔ 
زندگی زُلف کے سائے میں بھی شب کرتی ہے 

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment