Friday 24 January 2014

سیل حوادث سے نہ گھبرائیے

سیلِ حوادث سے نہ گھبرائیے
موجِ رواں بن کے گزر جائیے
زندگی میں ٹھوکریں بھی کھائیے
شرط مگر یہ ہے، سنبھل جائیے
دَم ہی نہ گُھٹ جائے کہیں عشق کا
اتنی توجہ بھی نہ فرمائیے
دی جو کبھی ہم نے خوشی کو‌صدا
ہنس کے کہا غم نے، اِدھر آئیے
عشق ازل ہی سے خانہ خراب
آپ سے کیا آپ نہ گھبرائیے
آج وہ مائل بہ کرم ہیں خمارؔ
جی میں یہ آتا ہے کہ مر جائیے

خمار بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment