سیلِ حوادث سے نہ گھبرائیے
موجِ رواں بن کے گزر جائیے
زندگی میں ٹھوکریں بھی کھائیے
شرط مگر یہ ہے، سنبھل جائیے
دَم ہی نہ گُھٹ جائے کہیں عشق کا
اتنی توجہ بھی نہ فرمائیے
دی جو کبھی ہم نے خوشی کوصدا
ہنس کے کہا غم نے، اِدھر آئیے
عشق ازل ہی سے خانہ خراب
آپ سے کیا آپ نہ گھبرائیے
آج وہ مائل بہ کرم ہیں خمارؔ
جی میں یہ آتا ہے کہ مر جائیے
موجِ رواں بن کے گزر جائیے
زندگی میں ٹھوکریں بھی کھائیے
شرط مگر یہ ہے، سنبھل جائیے
دَم ہی نہ گُھٹ جائے کہیں عشق کا
اتنی توجہ بھی نہ فرمائیے
دی جو کبھی ہم نے خوشی کوصدا
ہنس کے کہا غم نے، اِدھر آئیے
عشق ازل ہی سے خانہ خراب
آپ سے کیا آپ نہ گھبرائیے
آج وہ مائل بہ کرم ہیں خمارؔ
جی میں یہ آتا ہے کہ مر جائیے
خمار بارہ بنکوی
No comments:
Post a Comment