Tuesday, 28 January 2014

ہجر سے مرحلۂ زیست عدم ہے ہم کو

ہجر سے مرحلۂ زیست عدم ہے ہم کو
فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ کم ہے ہم کو
سائے سے اٹھ کے ابھی دھوپ میں جا بیٹھیں گے
گھر سے صحرا تو فقط ایک قدم ہے ہم کو
پا بہ جولاں تِرے کوچے میں بھی کِھینچے لائے
شحنۂ شہر سے اُمیدِ کرم ہے ہم کو
قحطِ معمورۂ صورت سے ہیں پتھر آنکھیں
اب خدا بھی نظر آئے تو صنم ہے ہم کو
دیکھ کیا آئینہ بے جنبشِ لب کہتا ہے
جو خموشی سے ہو وہ بات اہم ہے ہم کو
بے یقینی کو یقیں ہے کہ ہوا کچھ بھی نہیں
اور اِک حادثہ آنکھوں کا بھرم ہے ہم کو
ہم کہاں اور کہاں کوچۂ غالب عاصمؔ
"جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو"

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment