یہ بات پھر مجھے سُورج بتانے آیا ہے
ازل سے میرے تعاقب میں میرا سایا ہے
بلند ہوتی جا رہی ہیں دیواریں
اسیرِ در ہے وہ، جس نے مجھے بُلایا ہے
میں لازوال تھا مِٹ مِٹ کے پھر اُبھرتا رہا
وہ جس کے نین ہیں گہرے سمندروں جیسے
وہ اپنی ذات میں مجھ کو ڈبونے آیا ہے
ہنسا وہ مجھ پہ تو اُس کا کوئی کمال نہیں
اُسے مِرے ہی کسی غم نے گُدگُدایا ہے
قطار ہے مِرے پیچھے مگر میں کیا دیکھوں
جو سامنے ہے مِرے، وہ نظر کب آیا ہے
مِلی ہے اُس کو بھی شہرت قتیلؔ میری طرح
جب اُس نے لبوں پر مجھے سجایا ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment