نذرِ جون ایلیا
کیفیت ہے یہ جسم و جان میں کیا
کوئی آیا ہے ہے اِس مکان میں کیا
دھوپ میں تم جو بھاگے پِھرتے ہو
چھاؤں ڈَستی ہے سائبان میں کیا
رات تم نے بھی تو سُنی ہو گی
ذکر میرا تھا داستان میں کیا
مجھ کو تو اپنا آسرا بھی نہیں
آؤ گے تم مِری امان میں کیا
دو دلوں میں یہ دُوریاں کیسی
کوئی آیا ہے درمیان میں کیا
ایک تم سے ہی گھر کی رونق ہے
ورنہ رکھا تھا اِس مکان میں کیا
دیکھ لیتے ہو جب اُنہیں اشرفؔ
جان آتی نہیں ہے جان میں کیا
کوئی آیا ہے ہے اِس مکان میں کیا
دھوپ میں تم جو بھاگے پِھرتے ہو
چھاؤں ڈَستی ہے سائبان میں کیا
رات تم نے بھی تو سُنی ہو گی
ذکر میرا تھا داستان میں کیا
مجھ کو تو اپنا آسرا بھی نہیں
آؤ گے تم مِری امان میں کیا
دو دلوں میں یہ دُوریاں کیسی
کوئی آیا ہے درمیان میں کیا
ایک تم سے ہی گھر کی رونق ہے
ورنہ رکھا تھا اِس مکان میں کیا
دیکھ لیتے ہو جب اُنہیں اشرفؔ
جان آتی نہیں ہے جان میں کیا
اشرف نقوی
No comments:
Post a Comment