شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی
ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی
نالہ یوں نارسا نہیں رہتا
چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی
ایک جاں سوز و نامراد خلِش
اِس طرف ہے، اُدھر نہیں ہوتی
دوستو! عشق ہے خطا، لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی؟
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اِک ہماری سحر نہیں ہوتی
بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی
ایک دن دیکھنے کو آ جاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی
حُسن سب کو، خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی
دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی
ابن انشا
No comments:
Post a Comment