Thursday 30 January 2014

معجزہ ہمارے عہد میں بھی ہو گیا ہے

معجزہ ہمارے عہد میں بھی ہو گیا ہے
وہ اپنا عکس ہمارے آئینوں میں بو گیا ہے
وہی سمجھے گی ماں، میرے کرب کی کہانی
جس کا لاڈلہ بچہ اچانک کہیں کھو گیا ہے
نہ کوئی مطرب و رباب نہ کوئی راگ درباری
فن کار ہمارے شہر کا شاید سو گیا ہے
پانی سے بھرا تالاب دیکھ کر سمجھے گا کون
پچھلی رات کوئی مہتاب لب جُو رو گیا ہے
فصلِ گُل کا استعارہ اسے اب کون سمجھائے
وہ اپنے غم ہمارے مئے کدے میں بو گیا ہے
حدیثِ دل کی لوگو یہی تفسیر کافی ہے
نہیں ہونا تھا جو وہی اب ہو گیا ہے
یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے انور جمال
میرے چہرے میں اس کا چہرہ کھو گیا ہے

انور جمال فاروقی

No comments:

Post a Comment