تہ میں جو رہ گئے وہ موتی نکالئے
طغیانیوں کا ہاتھ سمندر میں ڈالئے
اپنی حدوں میں رہئے کہ رہ جائے آبرو
اوپر جو دیکھنا ہے تو پگڑی سنبھالئے
خوشبو تو مدتوں کی زمیں دوز ہو چکی
صدیوں کا فرق پڑتا ہے لمحوں کے پھیر میں
جو غم ہے آج کا اسے کل پر نہ ٹالئے
آیا ہی تھا ابھی مِرے لب پہ وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لئے
کہہ دو صلیبِ شب سے کہ اپنی منائے خیر
ہم نے تو پھر چراغ سروں کے جلا لئے
دنیا کی نفرتیں مجھے قلاش کر گئیں
اِک پیار کی نظر مِرے کاسے میں ڈالئے
محسوس ہو رہا ہے کچھ ایسا مجھے قتیلؔ
نیندوں نے جیسے آج کی شب پر لگا لئے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment