سکوں کے دن سے فراغت کی رات سے بھی گئے
تجھے گنوا کے بھری کائنات سے بھی گئے
جدا ہوئے تھے مگر دل کبھی نہ ٹُوٹا تھا
خفا ہوئے تو تیرے اِلتفات سے بھی گئے
چلے تو نِیل کی گہرائیاں تھیں آنکھوں میں
خیال تھا کہ تجھے پا کے خود کو ڈھونڈیں گے
تو مل گیا ہے تو خود اپنی ذات سے بھی گئے
بچھڑ کے خط بھی نہ لکھے اداس یاروں نے
کبھی کبھی کی ادھُوری بات سے بھی گئے
وہ شاخ شاخ لچکتے ہوئے بدن محسنؔ
مجھے تو مِل نہ سکے تیرے ہاتھ سے بھی گئے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment