Tuesday, 28 January 2014

سکوں کے دن سے فراغت کی رات سے بھی گئے

سکوں کے دن سے فراغت کی رات سے بھی گئے
تجھے گنوا کے بھری کائنات سے بھی گئے
جدا ہوئے تھے مگر دل کبھی نہ ٹُوٹا تھا
خفا ہوئے تو تیرے اِلتفات سے بھی گئے
چلے تو نِیل کی گہرائیاں تھیں آنکھوں میں
پلٹ کر آئے تو موجِ فرات سے بھی گئے
خیال تھا کہ تجھے پا کے خود کو ڈھونڈیں گے
تو مل گیا ہے تو خود اپنی ذات سے بھی گئے
بچھڑ کے خط بھی نہ لکھے اداس یاروں نے
کبھی کبھی کی ادھُوری بات سے بھی گئے
وہ شاخ شاخ لچکتے ہوئے بدن محسنؔ 
مجھے تو مِل نہ سکے تیرے ہاتھ سے بھی گئے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment