Friday 24 January 2014

غمِ دنیا نے ہمیں جب کبھی ناشاد کیا

غمِ دنیا نے ہمیں جب کبھی ناشاد کیا
اے غمِ دوست تجھے ہم نے بہت یاد کیا
حُسن معصوم کو آمادہ بے داد کیا
مجھ کو خود میری تمناؤں نے برباد کیا
اشک بہہ بہہ کر مِرے خاک پہ جب گرنے لگے
میں نے تجھ کو تِرے دامن کو بہت یاد کیا
قید میں رکھا ہمیں یاد نے کہہ کہہ کے یہی
ابھی آزاد کیا، بس ابھی آزاد کیا
پھر گئیں نظروں میں آنسو بھری آنکھیں اُنکی
جب کبھی غم نے مجھے مائلِ فریاد کیا
ہائے وہ دل مجھے اُس پہ ترس آتا ہے
تُو نے برباد کیا، جس کو نہ آباد کیا
آہ وہ خاطرِ نازک نہ ہو مغموم کہیں
ہچکیاں کہتی ہیں آج اُس نے مجھے یاد کیا
تجھ کو برباد تو ہونا تھا بہرحال خمارؔ
ناز کر ناز کر اُس نے تجھے برباد کیا

خمار بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment