Tuesday 28 January 2014

یہ عشق بھی کیا ہے، اسے اپنائے کوئی اور

یہ عشق بھی کیا ہے، اسے اپنائے کوئی اور 
چاہوں میں کسی اور کو، یاد آئے کوئی اور 
اس شخص کی محفل کبھی برپا ہو تو دیکھو 
ہو ذکر کسی اور کا، شرمائے کوئی اور 
اے ضبطِ انا! مجھ کو یہ منظر نہ دکھانا 
دامن ہو کسی اور کا، پھیلائے کوئی اور 
سر نوکِ سِناں پر ہے، بدن رزقِ زمین ہے 
مقتل سے عَلَم میرا اُٹھا لائے کوئی اور 
سِینے میں عجب آگ ہے اِک عمر سے پنہاں 
خواہش ہے کے اس آگ کو دہکائے کوئی اور 
مجھ پر نہیں کُھلتا میرا سوچا ہُوا اِک لفظ 
مطلب مجھے اس لفظ کا سمجھائے کوئی اور

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment