منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاؤں کے
نیندیں چُرا رہے ہیں وہ جھونکے ہواؤں کے
تیری گلی سے چاند زیادہ حسِیں نہیں
کہتے سُنے گئے ہیں مسافر خلاؤں کے
پَل بھر کو تیری یاد میں دھڑکا تھا دل مِرا
دادِ سفر مِلی ہے کسے راہِ شوق میں
ہم نے مٹا دئیے ہیں نشاں اپنے پاؤں کے
جب تک نہ کوئی آس تھی، یہ پیاس بھی نہ تھی
بے چین کر گئے ہمیں سائے گھٹاؤں کے
ہم نے لیا ہے جب بھی کسی راہزن کا نام
چہرے اُتر اُتر گئے کچھ رہنماؤں کے
اُگلے گا آفتاب کچھ ایسی بلا کی دُھوپ
رہ جائیں گے زمین پہ کچھ داغ چھاؤں کے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment