Tuesday 28 January 2014

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں

گیت

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں، ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹُوٹا ہے، اور تو کوئی بات نہیں
کس کو خبر تھی سانولے بادل بِن برسے اُڑ جاتے ہیں
ساون آیا، لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں
ٹُوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی
گونج رہی ہے کیوں شہنائی، جب کوئی بارات نہیں
غم کے اندھیارے میں تجھ کو اپنا ساتھی کیوں سمجھوں
تُو پر تُو ہے، میرا تو سایہ بھی میرے ساتھ نہیں
مانا جیون میں عورت اِک بار محبت کرتی ہے
لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تُو عورت ذات نہیں
ختم ہوا میرا افسانہ، اب یہ آنسو پونچھ بھی لو
جس میں کوئی تارا چمکے آج کی رات وہ رات نہیں
میرے غمگیں ہونے پر احباب ہیں یوں حیراں قتیلؔ
جیسے میں پتھر ہوں، میرے سینے میں جذبات نہیں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment