Thursday 30 January 2014

اعتبار نگاہ کر بیٹھے

اعتبارِ نگاہ کر بیٹھے
کتنے جلوے تباہ کر بیٹھے
آپ کا سنگِ دَر نہیں چمکا
ہم جبِینیں سیاہ کر بیٹھے
موت پر مُسکرانے آئے تھے
زندگانی تباہ کر بیٹھے
شمعِ امید کے اُجالے میں
کتنی راتیں سیاہ کر بیٹھے
صرف عذرِ گُناہ ہو نہ سکا
ورنہ سارے گُناہ کر بیٹھے
کس توقع پہ اہلِ دل قابلؔ
زندگی سے نِباہ کر بیٹھے

قابل اجمیری

No comments:

Post a Comment