اب کیا ہے جو تیرے پاس آؤں
کس مان پہ تجھ کو آزماؤں
زخم اب کے تو سامنے سے کھاؤں
دشمن سے نہ دوستی بڑھاؤں
تِتلی کی طرح جو اڑ چکا ہے
وہ لمحہ کہاں سے کھوج لاؤں
گِروی ہیں سماعتیں بھی اب تو
کیا تیری صدا کو منہ دِکھاؤں
اے میرے لیے نہ دکھنے والے
کیسے تِرے دکھ سمیٹ لاؤں
یوں تیری شناخت مجھ میں اترے
پہچان تک اپنی بھول جاؤں
تیرے ہی بھلے کو چاہتی ہوں
میں تجھ کو کبھی نہ یاد آؤں
قامت سے بڑی صلیب پا کر
دکھ کو کیوں کر گلے لگاؤں
دیوار سے بیل بڑھ گئی ہے
پھر کیوں نہ ہَوا میں پھیل جاؤں
کس مان پہ تجھ کو آزماؤں
زخم اب کے تو سامنے سے کھاؤں
دشمن سے نہ دوستی بڑھاؤں
تِتلی کی طرح جو اڑ چکا ہے
وہ لمحہ کہاں سے کھوج لاؤں
گِروی ہیں سماعتیں بھی اب تو
کیا تیری صدا کو منہ دِکھاؤں
اے میرے لیے نہ دکھنے والے
کیسے تِرے دکھ سمیٹ لاؤں
یوں تیری شناخت مجھ میں اترے
پہچان تک اپنی بھول جاؤں
تیرے ہی بھلے کو چاہتی ہوں
میں تجھ کو کبھی نہ یاد آؤں
قامت سے بڑی صلیب پا کر
دکھ کو کیوں کر گلے لگاؤں
دیوار سے بیل بڑھ گئی ہے
پھر کیوں نہ ہَوا میں پھیل جاؤں
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment