Wednesday 29 January 2014

حال نہیں ہے دل میں مطلق شور و فغاں رسوائی ہے

حال نہیں ہے دل میں مطلق، شور و فغاں رسوائی ہے
 یار گیا مجلس سے دیکھیں کس کس کی اب آئی ہے
 آنکھیں مَل کر کھولیں اُن نے عالم میں آشوب اُٹھا
 بال کھلے دکھلائی دیا، سو ہر کوئی سودائی ہے
 ڈول بیاں کیا کوئی کرے اس وعدہ خلاف کی دیہی کا
 ڈھال کے سانچے میں صانع نے وہ ترکیب بنائی ہے
 نِسبت کیا اُن لوگوں سے ہم شہری ہیں دیوانے ہم
 ہے فرہاد اِک آدمؑ کو ہی، مجنوں اِک صحرائی ہے
 ہے پتھر سا چھاتی میں میری، کثرتِ غم کی حیرت سے
 کیا کہیے پہلو سے دل کے سخت اذیّت پائی ہے
 باغ میں جا کر ہم جو رہے، سو اور دماغ آشفتہ ہوا
 کیا کیا سر پہ ہمارے بلبلِ شب چِلّائی ہے
 کیسا کیسا عجز ہے اپنا کیسے خاک میں ملتے ہیں
 کیا کیا ناز و غرور اُس کو ہے، کیا کیا بے پروائی ہے
 قصّہ ہم غربت زدگاں کا، کہنے کے شائستہ نہیں
 بے صبری کم پائی ہے، پھر دُور اُس سے تنہائی ہے
 چشمک، چتون، نیچی نگاہیں چاہ کی تیری مشعر ہیں
 میرؔ عبث بگڑے ہیں ہم سے، آنکھ کہیں تو لگائی ہے

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment