Monday 27 January 2014

شہ نشیں پر چاند اترا اک پرانی یاد کا

شہ نشیں پر چاند اترا، اِک پرانی یاد کا
دِل میں پرچم سا کھلا کس قریۂ برباد کا
شہر پر اس ساعتِ ناسعد کا سایہ ہے اَب
جھٹپٹے کے وقت کیوں پتھر رکھا بنیاد کا
بستیوں کی گونج پراسرار سی ہونے لگی
جیسے سناٹا پکارے شہرِ نا آباد کا
چہرۂ کہسار کا دِکھلا گیا اِک اور رنگ
ثانیے بھر کے لئے دیدار برق و رَعد کا
ایک اندیکھی خوشی رقصاں ہے برگ و بار میں
باغِ ہستی میں میرے موسم ہے ابر و باد کا
میں تو اڑنا بھول جاؤں زندگی بھر کے لئے
بھر گیا ہے دِل مگر مجھ سے میرے صیاد کا

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment