Tuesday, 28 January 2014

لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے شاعری سچ بولتی ہے

گیت

لاکھ پردوں میں رہوں بھید مِرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زباں ڈولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے

تیرا اصرار کہ چاہت مِری بے تاب نہ ہو
واقف اس غم سے مرا حلقۂ احباب نہ ہو
تُو مجھے ضبط کے صحراؤں میں کیوں رولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے

یہ بھی کیا بات کہ چُھپ چُھپ کے تُجھے پیار کروں
گر کوئی پوچھ ہی بیٹھے تو میں انکار کروں
جب کسی بات کو دنیا کی نظر تولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے

میں نے اس فکر میں کاٹیں کئی راتیں کئی دن
میرے شعروں میں تِرا نام نہ آئے، لیکن
جب تیری سانس میری سانس میں رس گھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے

تیرے جلووں کا ہے پرتو میری اک ایک غزل
تُو میرے جسم کا سایہ ہے تُو کترا کے نہ چل
پردہ داری تو خود اپنا ہی بھرم کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے


قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment