مِری نظر سے نہ ہو دُور ایک پَل کے لیے
تِرا وجود ہے لازم مِری غزل کے لیے
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں چراغ سے وہ بدن
ترس گئی ہیں نگاہیں کنول کنول کے لئے
ایک ایسا تجربہ مجھ کو ہُوا ہے آج کی رات
کسی کسی کے نصیبوں میں عشق لِکھا ہے
ہر اِک دماغ بھلا کب ہے اس خلل کے لئے
ہوئی نہ جرأتِ گُفتار تو سبب یہ تھا
مِلے نہ لفظ تِرے حُسنِ بے بدل کے لیے
سدا جئے یہ مِرا شہرِ بے مثال، جہاں
ہزار جھونپڑے گِرتے ہیں اِک محل کے لیے
قتیلؔ زخم سہوں اور مُسکراتا رہوں
بنے ہیں دائرے کیا کیا مِرے عمل کے لیے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment