درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
کسے خبر کہ اسِیروں پر کیا گزرتی ہے
تعلقات ابھی اس قدر نہ ٹُوٹے تھے
کہ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اب مِلے بھی تو مِلتا ہے اس طرح جیسے
فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت، مگر
گلی سے آج بھی اُن کی صدا گزرتی ہے
یہ اہلِ ہجر کی بستی ہے، احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے
بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں مگر اب کے
دلوں کی خیر، کہ موجِ بلا گزرتی ہے
نہ پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسنؔ
درِ قبول سے بچ کر دُعا گزرتی ہے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment