Tuesday 28 January 2014

جو میری ہتھیلی پہ لکیروں سے لکھا ہے

جو میری ہتھیلی پہ لکیروں سے لکھا ہے
تحفے میں مجھے میرے مقدر نے دیا ہے
آندھی کی طرح شہر میں چیخوں کی صدا ہے
اس شہر کے ہر گھر میں کوئی حشر بپا ہے
اب تلخ حقائق سے مفر ہو بھی تو کیسے
اب زیست ہماری اِک الم ناک صدا ہے
ڈر ہے کہ اسے اپنے قدم روند نہ جائیں
موہوم سی امید کا پودا تو اُگا ہے
مسموم ہے باہر کی فضا اور زیادہ
گھر سے تو نکل کر مِرا دم اور گُھٹا ہے
باہر سے تو پہلے کی طرح اب بھی ہوں سالم
لیکن مِرے اندر کوئی غم ٹوٹ رہا ہے
کچھ سُوکھے سے پتے ہیں مِری آخری پونجی
اور یہ بھی کہاں، آج بڑی تیز ہوا ہے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment