جو میری ہتھیلی پہ لکیروں سے لکھا ہے
تحفے میں مجھے میرے مقدر نے دیا ہے
آندھی کی طرح شہر میں چیخوں کی صدا ہے
اس شہر کے ہر گھر میں کوئی حشر بپا ہے
اب تلخ حقائق سے مفر ہو بھی تو کیسے
ڈر ہے کہ اسے اپنے قدم روند نہ جائیں
موہوم سی امید کا پودا تو اُگا ہے
مسموم ہے باہر کی فضا اور زیادہ
گھر سے تو نکل کر مِرا دم اور گُھٹا ہے
باہر سے تو پہلے کی طرح اب بھی ہوں سالم
لیکن مِرے اندر کوئی غم ٹوٹ رہا ہے
کچھ سُوکھے سے پتے ہیں مِری آخری پونجی
اور یہ بھی کہاں، آج بڑی تیز ہوا ہے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment