جاتے جاتے اِس طرح سب کچھ سوالی کر گیا
رُوح کا کمرہ بَھرا رہتا تھا، خالی کر گیا
عشق اپنے ساتھ یہ کیسی نِرالی کر گیا
چند لمحوں میں طبیعت لااُبالی کر گیا
اب نہ کوئی راہ چیختی ہے، نہ کوئی ہمسفر
وقت بھی کیسی عجب شے ہے ہمارے سامنے
اِک ذرا بِیتا تو سب دُنیا خیالی کر گیا
ہِجر کا اسپِ پریشاں، دل کی ہر اِک آرزو
فصل لاوارث سمجھ کر پائمالی کر گیا
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment