Monday 27 January 2014

مقامات ارباب جاں اور بھی ہیں

مقامات اربابِ جاں اور بھی ہیں
مکاں اور بھی لامکاں اور بھی ہیں
مکمّل نہیں ہے جنونِ تجسّس
مسلسل جہاں در جہاں اور بھی ہیں
یہیں تک نہیں عشق کی سیر گاہیں
مہ و انجم و کہکشاں اور بھی ہیں
محبت کی منزل ہی شائد نہیں ہے
کہ جب دیکھئے امتحاں اور بھی ہیں
محبت نہیں سر مقصودِ انساں
محبت میں کارِ جہاں اور بھی ہیں
قفس توڑ کر مطمئن ہو نہ بلبل
قفس صورتِ آشیاں اور بھی ہیں
بہت دل کے حالات کہنے کے قابل
ورائے نگاہ و زباں اور بھی ہیں
نہیں منحصر کچھ مے و میکدہ تک
مری تشنہ سامانیاں اور بھی ہیں
خوشا درسِ غیرت زہے عشقِ تنہا
وہاں بھی نہیں ہوں جہاں اور بھی ہیں
صبا خاک دل سے بچا اپنا دامن
ابھی اس میں چنگاریاں اور بھی ہیں
انہیں جس سے ہے اعتمادِ محبت
وہ مجھ سے جگر بدگماں اور بھی ہیں

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment