Tuesday 28 January 2014

گرد رہ ملال مرے ساتھ ساتھ چل

گردِ رہِ ملال مِرے ساتھ ساتھ چل
مت کر بہت سوال مِرے ساتھ ساتھ چل
دشتِ فراق میں نہ بھٹک جاؤں میں کہیں
مِثلِ شبِ وصال مِرے ساتھ ساتھ چل
رستہ ہے شہرِ عشق کا صدیوں سے بھی طویل
ہو نہ سفر محال مِرے ساتھ ساتھ چل
ممکن نہیں کہ تُو ہو مکمل مِرے بغیر
اے یارِ خوش خصال مِرے ساتھ ساتھ چل
مر جاؤں گا جو ایک بھی پَل رُک گیا کہیں
کر اور تیز چال، مِرے ساتھ ساتھ چل
پتھر ہوں، کر دے مجھ کو بھی تُو آئینہ مثال
اے دستِ با کمال! مِرے ساتھ ساتھ چل
آنکھوں کے در پہ خواب کی دستک کو تُو بھی سُن
چل، نیند کے غزال، مِرے ساتھ ساتھ چل
پیچھے میں رہ نہ جاؤں، مِری ہم قدم ہی رہ
اے لہرِ ماہ و سال مِرے ساتھ ساتھ چل
چاروں طرف ہے پھیلا ہوا خواب کا دُھواں
اے مشعلِ خیال مِرے ساتھ ساتھ چل
اشرفؔ نہ رکھ چراغ کو سورج کے سامنے
کر اور کچھ کمال، مِرے ساتھ ساتھ چل

اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment