Wednesday, 29 January 2014

مطلق نہیں ادھر ہے اس دلربا کی خواہش

مطلق نہیں ادھر ہے اس دلربا کی خواہش
 کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش
 دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے
 رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی جفا کی خواہش
 لعلِ خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں
 پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش
 اقلیمِ حُسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں
 کیا کریے یاں نہیں ہے جنسِ وفا کی خواہش
 خونِ جگر ہی کھانا آغازِ عشق میں ہے
 رہتی ہے اس مرض میں پھر کب غذا کی خواہش
 وہ شوخ دشمنِ جاں، اے دل تُو اس کا خواہاں
 کرتا ہے کوئی ظالم ایسی بلا کی خواہش
 میرے بھی حق میں کر ٹک ہاتھوں کو میرؔ اونچا
 رکھتا ہے اہلِ دل سے ہر ایک دعا کی خواہش

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment