Thursday 30 January 2014

بس اک چراغ یہ روشن دل تباہ میں ہے

بس اک چراغ یہ روشن دلِ تباہ میں ہے
کہ اس کی میری جدائی ابھی نِباہ میں ہے
تمہارا ہِجر، صدی دو صدی تو پالیں گے
ابھی کچھ اِتنی سَکت تو ہماری چاہ میں ہے
میں مطمئن ہوں کہ تُو مطمئن نہیں دُشمن
ابھی تو ایک یہی چال رزم گاہ میں ہے
عجب غرُور میرے قلبِ مُنکسر میں ہے
عجیب عِجز میری ذاتِ کَج کلاہ میں ہے
میں پُرسکوں ہوں مضافات میں بسیرے پر
کہ شہر بھر کا تماشا میری نگاہ میں ہے

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment