نکلے تیری تلاش میں پھر در بدر رہے
ہم خانہ بدوش لوگ تھے، دریوزہ گر رہے
الجھے ہیں کچھ اِس طرح غمِ روزگار میں
گردشِ ماہ وسال سے بھی بے خبر رہے
ہر شام کے نصیب میں اِک سفاک رات ہے
ہر شام یہ سوچ کر ہم اپنے گھر رہے
پچھلے برس سائبان صرصر تھی لے اڑی
اب کے برس شاید نہ دیوار اور در رہے
کبھی ہنسنا کبھی رونا، کبھی چپ چاپ سو جانا
حیراں ہمارے احوال پر سب نوحہ گر رہے
تھک کر کبھو نہ بیٹھے کِسی بھی چھاؤں میں
گو رَستے میں ہاتھ ہلاتے کئی شجر رہے
کِس کِس کا گِلہ کریں انور جمال ہم
خواہش کے سارے پیڑ ہی جب بے ثمر رہے
ہم خانہ بدوش لوگ تھے، دریوزہ گر رہے
الجھے ہیں کچھ اِس طرح غمِ روزگار میں
گردشِ ماہ وسال سے بھی بے خبر رہے
ہر شام کے نصیب میں اِک سفاک رات ہے
ہر شام یہ سوچ کر ہم اپنے گھر رہے
پچھلے برس سائبان صرصر تھی لے اڑی
اب کے برس شاید نہ دیوار اور در رہے
کبھی ہنسنا کبھی رونا، کبھی چپ چاپ سو جانا
حیراں ہمارے احوال پر سب نوحہ گر رہے
تھک کر کبھو نہ بیٹھے کِسی بھی چھاؤں میں
گو رَستے میں ہاتھ ہلاتے کئی شجر رہے
کِس کِس کا گِلہ کریں انور جمال ہم
خواہش کے سارے پیڑ ہی جب بے ثمر رہے
انور جمال فاروقی
No comments:
Post a Comment