کر رہے قریہ قریہ زندگی کی جستجو، میں اور تُو
ہو گئے آوارگی کے نام پر بے آبرو، میں اور تُو
تھے جہاں رسموں رواجوں کے اندھیروں پر فدا، اب اُس جگہ
معذرت بن کر کھڑے ہیں روشنی کے روبرو، میں اور تُو
کُچھ دنوں سے میں تِری اور تُو مِری مہمان ہے، کیا شان ہے
آج کی ساری بہاریں، آج کی ہر اک خزاں، نامہرباں
رُت نئی کب آئے گی، کب ہوں گے آخر سرخرو، میں اور تو
کل بھی اپنی ذات میں ہم سرمد و منصور تھے، مسرور تھے
کر رہے ہیں آج بھی ذوقِ انا کی آرزو، میں اور تُو
یہ ضروری تو نہیں حرف و صدا پُرزور ہو، اِک شور ہو
بند ہونٹوں سے بھی کرتے آ رہے ہیں گفتگو، میں اور تُو
اس گلستاں میں قتیلؔ اب نغمگی کے رازداں، ہوں گے کہاں
دو ہی رہ جائیں گے باقی طائرانِ خوش گلو، میں اور تُو
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment