وہ ساون جس میں زُلفوں کی گھٹا چھائی نہیں ہوتی
جو برسے بھی تو سیراب اپنی تنہائی نہیں ہوتی
جنابِ عشق کرتے ہیں کرم کُچھ خاص لوگوں پر
ہر انسان کے مقدّر میں تو رُسوائی نہیں ہوتی
سمندر پُرسکوں ہے اس لیے گہرا بھی ہے ورنہ
یہ واعظ ہے، نہیں تقریر میں رکھتا جواب اپنا
مگر اس شخص کی باتوں میں سچائی نہیں ہوتی
جہاں ساقی کی ایما پر کوئی کم ظرف آ بیٹھے
وہاں خوش ذوق رِندوں کی پزیرائی نہیں ہوتی
کبھی چہرے بدل کر بھی یہاں کچھ لوگ آتے ہیں
کبھی کُچھ دیکھتی آنکھوں میں بِینائی نہیں ہوتی
قتیلؔ اکثر یہ دیکھا ہے کسی مُفلس کے آنگن میں
برات آئے تو اس کے ساتھ شہنائی نہیں ہوتی
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment