Wednesday 29 January 2014

ایک تو نیناں کجرارے اور اس پر ڈوبے کاجل میں

ایک تو نیناں کجرارے اور اس پر ڈوبے کاجل میں
بجلی کی بڑھ جائے چمک کچھ اور بھی گہرے بادل میں
آج ذرا للچائی نظر سے اس کو بس کیا دیکھ لیا
پَگ پَگ اس کے دل کی دھڑکن اتری آئے پائل میں
پیاسے پیاسے نیناں اس کے جانے پگلی چاہے کیا
تٹ پر جب بھی جاوے سوچے ندیا بھر لوں چھاگل میں
صبح نہانے جُوڑا کھولے، ناگ بدن سے آ لپٹیں
اس کی رنگت، اُس کی خوشبو کتنی مِلتی صندل میں
چاند کی پتلی نوک پہ جیسے کوئی بادل ٹِک جائے
ایسے اس کا گِرتا آنچل اٹکے آڑی ہیکل میں
گوری اس سنسار میں مجھ کو ایسا تیرا رُوپ لگے
جیسے کوئی دِیپ جلا ہو گھور اندھیرے جنگل میں
کھڑکی کی باریک جَھری سے کون یہ مجھ تک آ جائے
جسم چُرائے، نین جُھکائے، خُوشبو باندھے آنچل میں
پیار کی یُوں ہر بُوند جلا دی میں نے اپنے سینے میں
جیسے کوئی جلتی ماچس ڈال دے پی کر بوتل میں
آج پتہ کیا، کون سے لمحے، کون سا طوفاں جاگ اٹھے
جانے کتنی درد کی صدیاں گونج رہی ہیں پَل پَل میں
ہم بھی کیا ہیں کل تک ہم کو فکر سکوں کی رہتی تھی
آج سکوں سے گھبراتے ہیں، چین مِلے ہے ہلچل میں

جاں نثار اختر

No comments:

Post a Comment